فریبِ رنگ عیاں ہے، جدھر نگاہ کروں
ضمیرِ پاک، بتا، کِس کے دل میں راہ کروں
نئے چراغ جلا لوں، مگر یہ عزمِ صمیم
کہ شمعِ کشتہ سے ہر حال میں نباہ کروں
مجھے وہ کیف گوارا نہیں جو فانی ہو
کوئی بتائے کہ اب کون سا گناہ کروں
کلی کلی کی رگوں میں رواں ہے میرا لہوُ
کسے گلے سے لگاؤں، کسے تباہ کروں
یہ جرُم ہے کہ مَیں گردوں پرست کیوں نہ ہوُا
جو اذن ہو تو تیرے حُسن کو گواہ کروں
یہ آرزو ہے کی تیری پناہ کو تج کر
مَیں تیرے لُطف و کرم کو جہاں پناہ کروں