فضا میں کرب کا احساس آب جیسا ہے
ہوس کی کھڑکیاں کھولے عذاب جیسا ہے
عجیب رشتے بناتی ہے توڑ دیتی ہے
نئی رتوں کے سفرلاجواب جیسا ہے
یہ دھڑکنوں کے اندھیرے یہ زخم زخم چراغ
کواڑ خالی مکانوں کےخواب جیسا ہے
اٹھا ہ گہرا اندھیرا غضب کا سناٹا
سماعتوں کی فضا میں کتاب جیسا ہے
کدھر سے آتی ہے آوارہ خوشبو ں کی طرح
برہنہ جسم کے سائے گلاب جیسا ہے
نہ رتجگوں کے ہیں چرچے نہ کوئی غم کا الاؤ
سنبھل کے آئے ذرا گھر حساب جیسا ہے
نہ پیش نامۂ اعمال کر ابھی وشمہ
حساب کیسا ہے یہ انتساب جیسا ہے