فضول بھی تو نہیں ہے، گلوں کا کھل جانا
بگڑتا کچھ بھی نہیں دوست آ کے مل جانا
خمار قربت جاناں، وصال کی خواہش
گریباں چاک وہ حسرت، لبوں کا سل جانا
وفور شوق میں کیا کیا ہوا، خبر ہی نہیں
کہیں پہ زخم بھی آنا۔ کہیں پہ چھل جانا
پھر اُس کے بعد وہ آرائش خم و کاکُل
بکھرنا ایسے، سنبھلنا تو مُنفعل جانا
ترا جواب نہیں راہ وصل پر اظہر
مصیبتوں سے گزرنا پہ مستقل جانا