ایک آوارہ جان ہے فقط، اور نہیں کچھ
دل میں دھبے ارمان ہیں، فقط اور نہیں کچھ؟؟؟
ہم حسرتوں کی بات سرِ عام نہیں کرتے
لب پہ تیرا نام ہے، فقط اور نہیں کچھ
تم سے کچھ کہنا تھا، کچھ کہہ نہ سکے ہم
یہی میرا کام ہے، فقط اور نہیں کچھ
زاویے نگاہوں کے بدل جاتے ہیں، اپنوں کی
تیرا بھی کوئی دام ہے، فقط اور نہیں کچھ
سلسلے بڑھائے نہیں تھے میں نے تجھ سے
تو تو میری جان ہے، فقط اور نہیں کچھ
یوں عاشقی نہیں کی جاتی ہر کسی سے جاناں
تیرا ایک مقام ہے، فقط اور نہیں کچھ
ہزار بار نہیں، ہر بار یہی جتلایا ہے کہ
تو ہی میرا مان ہے، فقط اور نہیں کچھ
اب کہ پھر لوٹ آو نہ آخری بار میرے پاس
ابھی تو ڈھلی شام ہے، فقط اور نہیں کچھ
کیا کہتے ہو؟ کچھ ارادے ہیں نبھا کرنے کے بھی؟
زندگی رہی ناتمام ہے، فقط اور نہیں کچھ
ایک آوارہ جان ہے فقط، اور نہیں کچھ
دل میں دھبے ارمان ہیں، فقط اور نہیں کچھ