فکر کی آنکھ سے اوجھل تھا سُخن کا پہلو
بس اِسی واسطے تشنہ رہا فن کا پہلو
لوٹ جاتی ہے، بہار آ کے درِ گلشن تک
اب خزاں کے لیے کھلتا ہے چمن کا پہلو
انقلابات کی تقدیر سنور جائے گی
جاں گزیں سوچ میں ہو دارورسن کا پہلو
دِل کو چھوتی نہیں اب کوئی غزل ، شعر کوئی
چھا گیا حسنِ ترنم پہ بھجن کا پہلو
میں تو بس، دولتِ اخلاص کا شیدائی ہوں
اس لئے پیشِ نظر ہی نہیں دھن کا پہلو
ایک حسینہ ہے ، تشدّد جسے کہتے ہیں عزیز
گرم رکھتی ہے بہت اہلِ وطن کا پہلو