چاہتوں کا جواب دینا ہے
گزرے لمحوں کا حساب دینا ہے
پھر نہ کبھی یاد کر پاؤں تجھے
حوصلہ کر خراب دینا ہے
جیسے طوفان اک بپھرتا ہے جیسے
اب کہ ایسا سیلاب دینا ہے
ہنستے مسکراتے رہو سجناں
جاگی آنکھوں کو خواب دینا ہے
آؤ مل کر یہ فیصلہ کر لیں
اور کتنا عذاب دینا ہے