فیصلہ کر لیا دل نے تو پچھتاوا کیسا
اہل ِاُلفت سے وفاؤں کا تقاضا کیسا
اے مجھے پتھر کا صنم کہنے والے
پتھروں سے بتا تجھے یہ شکوہ کیسا
منزل طلب نہ کر اے راہ رو ِ محبت
نہ خبر تھی تجھ کو ہے یہ سودا کیسا
یہ سوز تو دل کو محبوب ہوا کرتا ہے
پروانے سے پوچھو جلنے کا مزا کیسا
ارماں ہی رہا میرا کبھی آئے رضا وہ
پوچھے کبھی مجھ سے حال میرا کیسا