آج تیری جبین پہ حسرت نہیں ، شکن کہی ہے
جُدا دِل سے میری جان کہی ، بدن کہی ہے
تپتے راہُوں میں تیری خاک عشق کی نہ ملی
یہی میری محبت پڑی بے کفن کہی ہے
باہوں میں تیری موت کے لگ جاوٕں گلے میں
تجھے دیکھتے سانسوں میں اُٹھتی گُھٹن کہی ہے
کل کے ظالم نے دیا آج تحفہ ٴ قاتلانہ
بچنے کی نہ تمنا نہ کوئی کرن کہی ہے
شرافت کے رخ پہ دیکھوں ذرا وہی عادت پرانی
تیرے خنجر سے نہ لہو کہی نہ تھکن کہی یے