قتل چُھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چِھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
سُرخیاں امن کی تلقیں میں مصروف رہیں
حرف بارود اُگلتے رہے اخبار بیچ
کاش اِس خواب کو تعبیر کی مُہلت نہ ملے
شعلے اُگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ
ڈھلتے سُورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سَر کشیدہ میرا سایہ صفِ اشجار کے بیچ
رِزق، ملبُوس، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا
مُنقسم ہوگیا اِنسان انہی افکار کے بیچ
دیکھے جاتے نہ تھے آنسو میِرے جس سے محسن
آج ہنستے ہوئے دیکھا اُسے اغیار کے بیچ