قدم دو قدم ہی سہی ساتھ چلنا ہمسفر ضرور بن کر
توڑ نہ دینا یہ چاہتوں کا سلسلہ بے شعور بن کر
ہم تو مسکرا کر پی جاتے ہیں جام نفرت کو بھی
میری روح میں جب سے وہ بسا ہے لطف و سرور بن کر
ہم تو خوشی سے ہی ہو گئے ہیں پاگل
میری بےرنگ زندگی میں جب وہ آیا ہے چاہت کا نور بن کر
دل میں ایک ارمان مچلتا ہے دیکھ کر حسن یار کو
کاش میرا خون جگر اس کے ماتھے پر سجے سندور بن کر
وہ مجھے اس دنیا میں نہ ملے تو نہ سہی پاگل
رب کرے وہ مجھے جنت میں ملے حور بن کر