قرار دشت وفا میں کہاں نصیب ہوا
کوئی قریب ہوا تو یہ دل رقیب ہوا
یہ عشق کا سودا بھی کیا عجیب ہوا
وہ مالا مال ہوئے اور میں غریب ہوا
دل مضطرب بھی سکون پا گیا آخر
جس نے زخم دیا تھا وہی طبیب ہوا
دلوں میں دوریاں مٹنے لگی ہیں
رقیب جان ہی آخر میرا حبیب ہوا
کسی پہ توقیر کیا بھروسہ کیجیے
جو معتبر تھا نظر میں وہی نقیب ہوا