قربت کے خریدار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب رونقِ بازار پہ بھی ٹیکس لگے گا
درویش کے دربار پہ بھی ٹیکس لگے گا
استاد کی گفتار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب عشق کے بیمار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب ملنے کے اصرار پہ بھی ٹیکس لگے گا
مالوف کے دیدار پہ بھی ٹیکس لگے گا
انسان کے کردار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب سوچ کے محبوب سے ملنے ذرا جانا
کہتے ہیں کہ انکار پہ بھی ٹیکس لگے گا
ویران ہو جائے گا گلشن بھی ہمارا
ہر پھول چمن خار پہ بھی ٹیکس لگے گا
بھر جائے گا ممکن ہے حکومت کا خزانہ
حسنِ گلِ گلزار پہ بھی ٹیکس لگے گا
محبوب کو جی بھر کے ذرا دیکھ لو اب تم
اب تل لب و رخسار پہ بھی ٹیکس لگے گا
سگریٹ پہ پہلے ہی حکومت نے لگایا
امکان ہے نسوار پہ بھی ٹیکس لگے گا
شاعر جو بنے پھرتے ہیں مشہور سخنور
اب غزلوں کی بھر مار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اظہارِ محبت ذرا اب سوچ کے کرنا
اب پیار کے اظہار پہ بھی ٹیکس لگے گا
لکھتے ہیں سخنور بنا کر زلف کی توقیر
اب زلفوں کی ہر تار پہ بھی ٹیکس لگے گا
شہزاد حکومت کے مخالف لکھو گے کچھ
پھر دیکھنا اشعار پہ بھی ٹیکس لگے گا