قسمت اپنی ایسی کچی نکلی ہے
ہر محفل سے بس تنہائی نکلی ہے
خط اوس کے جب آج جلانے بیٹھا تو
ماچس کی تیلی بھی سیلی نکلی ہے
شور شرابہ رہتا تھا جس آنگن میں
آج وہاں سے بس خاموشی نکلی ہے
بھوکا بچہ دیکھا تو ان آنکھوں سے
آنسو کی پھر ایک ندی سی نکلی ہے
اپنی صورت کی پرتیں جب کھولیں تو
اپنی صورت اس کے جیسی نکلی ہے
میں نے بھی دیکھا ہے تیری رحمت کو
طوفانوں سے بچ کے کشتی نکلی ہے
دل ٹوٹا تو میتؔ سمجھ میں یہ آیا
عشق وفا سب ایک پہیلی نکلی ہے