بیٹھ جاتے ہو رُخِ یار دُو بُدو کر کے
قلم کو ہاتھ لگایا کرو وُضو کر کے
پہلے مانگا کرو دعائےِ رحمت وعزت
سبھی کے واسطے ہتھیلیاں سُبوُ کر کے
کچھ تو آدابِ شعر گوئی سیکھ کر آؤ
سُخن آرائیاں بڑ ھاؤ آبرو کر کے
ہر ایک سانس میں لبیک کی صدا آئے
نامِ مولا کو رکھو زینتِ گُلوُ کر کے
یہ تُند مزاجیاں تو غیر کا اَ ثا ثہ ہیں
تیری حیات کٹے در گُزر عُفو کر کے
میرے درماں تو میرا تاب شناسا ہے
جگا دینا مِرا چاکِ جگر رفو کر کے
خُدا کو ڈھونڈنے جاتا تو کیا ملا ہوتا
خُدا مِلا ہے اگر تیری جُستجو کر کے
پھر آئیں گے تیری بزم کو زباں دینے
چلیں سکندر و گوہر جہاں خُلُو کر کے