قلم کی نوک سے نکلے حروف کیا جانو
یہی حروف سمجھتے ہوئے زمانے لگے
پیام حق کا تسلسل رہا برائے اہل زمیں
ہم اپنے تئیں سب سبق بھلانے لگے
اُدھر سے حکمت پیعم میری طہارت کو
اِدھر یہ حال میرے ہاتھ سو بہانے لگے
ھر ایک دور میں اترے چراغ نور یہاں
ہمارا جہَل کہ پھونکوں سے ہی بجھانےلگے
صنم کدوں کی تباہی کا جو سبب ٹھہرے
زمانے والے اسے آگ میں جلانے لگے
وہ جس کے ہاتھ میں اعصائے معجزانہ تھا
تو بے شعور اُنہیں سانپ سے ڈرانے لگے
جو بچپنے میں ہی دعویٰ کتاب کرتے تھے
بجز یقین کے انہیں دار پر چڑھانے لگے
پھر ایک عرصہ جہالت کی حکمرانی رہی
ستم کی حد تھی وہ بیٹیاں دبانے لگے
حرا کی اوٹ سے آخروہ آفتاب بھی ابھرا
وہ جس کے ساتھ ستارے بھی جگمگانے لگے
نساء کو عزت و رتبہ بشر کو شرف ملا
اصول، زیست کے ہرسو رواج پانے لگے
قلم کی چوٹ سے دریائے علم و ادب رواں
ملا وہ جوش کہ ہم کشتیاں جلانے لگے
انہی کا فیض ہے ان کی ضیا ہے آج ہر سو
کہ شرق و غرب میں اپنے قدم جمانے لگے