قَمرِ شوال
Poet: عاقل راجپوت By: عاقل راجپوت, Dubaiاپنے کاندھے کے تل کو، ڈھانپ کیوں نہی لیتی؟
اس غوشہِ دامن کو آخر، کب تک سنبھال رکھنا ہے؟
وہ بولی تُو مجھے دیکھے تو بس دیکھتا رہ جاۓ
اِس تل نے تیرا جینا یونہی محال رکھنا ہے
میں بولا خدارا بے ایمان ہوتا ہوں ایسے تو
وہ بولی تیری وحشتوں کا تجھ میں اُبال رکھنا ہے
دھڑکنوں کو سنبھالا تھا کے ہونٹ دبا کر دانت میں
کہتی ہے کب تک اپنی پلکوں کا یہ زوال رکھنا ہے؟
دھیرے دھیرے بڑھا کر قدم میری جانب وہ بولی
تیرے چہرے کو بس یونہی، میں نے لال رکھنا ہے
میں گھبراتا ہوا دو قدم پیچھے کو ہٹا اس سے
لپک کر کہنے لگی کب تک یہ ملال رکھنا ہے؟
بے اختیار ہو کر نظر پھِر اُس پر پڑی میری
اُس کا حُسن بولا کہ کِس چیز کا خیال رکھنا ہے؟
میری آنکھیں پھر تراشتی رہی اُس مُجسمے کو
دل بولا کیا اب بھی کوئی سوال رکھنا ہے؟
ماشأاللہ کہہ کر پھر، خیال یہ آیا مجھ کو عاقل
اپنے سامنے ہی اب یہ قمرِ شوال رکھنا ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






