طویل راہوں پہ گاڑی کا یہ سفر تنہا
وہ دودھیا سے پہاڑوں کا دلنشیں منظر
یہ برف اوڑھے صنوبر کے اونچے اونچے شجر
سنائی دیتی ہے گزرے زمانے کی دستک
دکھائی دیتے ہیں سب خواب کل کے دیکھے ہوئے
یہ لگ رہا ہے مرے ساتھ والی سیٹ پہ تم
حسین شوخ نگاہوں سے دیکھتی ہو مجھے
تمھارے بالوں کی خوشبو ہے میری سانسوں میں
ہوا اڑاتی ہے رنگین ریشمی آنچل
تم اپنے پیروں کو رکھتی ہو میرے پیروں پہ
قریب ہو کے مرا ہاتھ تم نے تھاما ہے
محبتوں کو لیے میرے شانے پہ تم نے
یوں سر کو رکھا ہے جیسے ہو پیاس صدیوں کی
وہ پیاس
جس کو محبت ہی بس مٹاتی ہے
ہماری روحوں کو جو
ہر گھڑی ستاتی ہے
وہ پیاس جو کہ ہمارے بدن جلاتی ہے
یہ لگ رہا ہے مریے ساتھ والی سیٹ پہ تم
حسین شوخ نگاہوں سے دیکھتی ہو مجھے
یہ لگ رہا ہے کہ تم مجھ سے کہہ رہی ہو وہی
محبتوں کی حسیں بات جو کہی تھی کبھی
ہاں کہہ رہی ہو
“ مجھے تم سے پیار ہے زاہد
تمھارے بن تو مرا ایک پل بھی ہےمشکل
تمھارا ساتھ ملے تو ملے مجھے منزل“
یہ لگ رہا ہے مرے ساتھ والی سیٹ پہ تم
حسین شوخ نگاہوں سے دیکھتی ہو مجھے
مگر یہ سب تو حقیقت نہیں مری محبوب!
تم مجھ سے دور بہت دور ہو کسی گھر میں
وہ گھر جو میرے لیے غیر ہے تمھاری طرح
وہ گھر کہ جس میں امانت ہو اپنے شوہر کی
وہ گھر کہ جس میں سکوں ہے قرار ہے تم کو
وہ گھر کہ جس میں سکوں ہی رہے
قرار رہے
میں اس سفر میں اکیلا ہوں دل شکستہ ہوں
تمھیں میں سوچ کے بس ٹھنڈی آہ بھرتا ہوں
طویل راہوں میں گاڑی کا یہ سفر تنہا
یہ لگ رہا ہے مرے ساتھ والی سیٹ پہ تم
حسین شوخ نگاہوں سے دیکھتی ہو مجھے