کوئی جرم کیا ہو جیسے
جینا بھی سزا ہو جیسے
ہنسی پہ بھی آنسو نکلیں
درد کوئی روک لیا ہو جیسے
لفظ لبوں پہ آ رکتے ہیں
کوئی زہر پیا ہو جیسے
زرخیز زمینوں سے دریا
کہیں رخ بدل گیا ہو جیسے
آسماں بھی زرد ہوا ہے
کہیں کوئی ظلم ہوا ہو جیسے
کوئی ہاتھ بھی ملاتا نہیں
مفلسی بھی گناہ ہو جیسے
سمندر بھی خاموش کھڑا ہے
عثمان کچھ سوچ رہا ہو جیسے