لندن کے سفر میں۔۔۔
Poet: Mahvish Hina By: Mahvish Hina, Oldham, Manchesterلندن کے سفر میں
اِن انجانے رستوں کے بیچ
کیا وہ کبھی یوں ہمسفر ہو گا
کیا میری اِس ساتھ والی
خالی سیٹ پہ وہ بیٹھے گا۔
میں یوں اُس کے کندھے پہ سر رکھ کر
سفر کی نیند پوری کر پاﺅں گی؟
کیا کبھی کسی گزرے خوبصورت نظارے پر
میں اسکو چونکا سکوں گی
یوں آدھے راستے میں
ایک انجانے ہوٹل میں
کافی کا ایک کپ
شیئر کریں گے؟
دوبارہ بس پکڑنے کی جلدی میں
وہ یوں بھی کبھی میرا ہاتھ پکڑے دوڑے گا
بس میں ساتھ بیٹھے
ہر بات پر نوک جھوک ہو گی
میری یوں آنکھ لگ جانے پہ
وہ اپنا کوٹ مجھے اوڑھائے گا
میری آنکھ کُھل جانے کے ڈر سے
وہ اپنی سانس بھی دھیمی رکھے گا
میرے سوتے ہوئے چہرے کو
آنکھ جھپک کے دیکھے گا
پھر بے اختیار ہو کے
میرے ماتھے پہ اپنے ہونٹ رکھ دے گا
میں چونک کر آنکھ کھولوں گی
اور وہ مجھے دیکھ کر مسکرا دے گا
اور میں سب سمجھ کے اُس کے ہاتھ پہ
محبت کا ایک سجدہ کروں گی
اور اسکے بازو کو
اپنے دونو ںہاتھوں میں جکڑ کے
سر اُس کے کاندھے پہ رکھ کے
پھر آنکھیں بند کر لوں گی
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






