لو چلی اب میں تیرا آنگن چھوڑ کر بابل
Poet: anam By: anam, karachiلو چلی اب میں تیرا آنگن چھوڑ کر بابل
بیٹھاؤ ڈولی پیار بھرے بول بول کر بابل
میرے سارے کھلونے بابل سنبھال رکھنا
جب یاد آئے میری میری گڑیا گلے سے لگا لینا
تیرا گھر چھوڑ کر اب پیا گھر رہنا ہے مجھے
پلا دو اب مجھے جدائی کا جام گھول کر بابل
ماتھے پر سجا کر جھومر دلہن میں بنی ہوں
پہن کر عروسی جوڑا پیا کیلئے میں سجی ہوں
خوشیوں کا اک جہاں ہے منتظر پر دل اداس ہے
جانے کب ملاقات ہودیکھ لواپنی گڑیا جی بھر کر بابل
ماں تیری لاڈو تیری محبت کے آنچل تلے پلی
ہو کر پرائی اب تیرا میں دامن چھوڑ چلی
میری بہنیں میرے بھائی میری سکھیاں اداس ہیں
میرے بعد میرے ان رشتوں کو رکھنا سنبھال کر بابل
ہو جاتا کبھی اندھیر ا تو میرا ڈر سے گھبرانا
یاد آئے گا ماں مجھے تیرا ڈور کر چلے آنا
چھپا کر اپنے آنچل میں مجھے پیار سے سمجھانا
یاد آئے گا میرے سر پر ہاتھ رکھ کرتیرا بہلانا بابل
لو چلی اب میں تیرا آنگن چھوڑ کر بابل
بیٹھاؤ ڈولی پیار بھرے بول بول کر بابل
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






