لو گارڈن۔۔۔۔۔۔۔۔باغ محبت
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillپھول کھلتے تھے جس میں لاکھوں آرزوؤں کے
جس کے دامن میں بسیرا تھا حسن زندگی کا
جسکے اشجار بتاتے ہیں گئے وقت کے راز
جسکے اطراف سے آتی ہے فیض کی آواز
جس میں آتی تھی نظر رونق تمنائی
جس نے دیکھی ہے حسینوں کی حسن آرائی
جس کے سبزے پہ پڑا کرتے تھے اس شوخ کے پیر
جس میں ہوتی تھی شب و روز دھڑکنوں کی سیر
جسکو دیکھا جو کبھی ۔ آئینے نظر آئے
جس کے جلووں میں کئی گھونسلے نظر آئے
جس میں سجتی تھی کبھی بزم شناسائی کی
جس میں گزری ہیں کئی ساعتیں تنہائی کی
عہد و پیمان کی باتیں تو کبھی علم کی بات
وہ جسکے کونوں میں بکھری ہے یاد کی بارت
اب وہاں ٹرمینل تعمیر ہوا چاہتا ہے
زہر بھی حسن کی تعبیر ہوا چاہتا ہے
عہد ماضی کے دھندلکوں کو کون دیکھے گا
یاد کے ان حسیں محلوں کا کون سوچے گا
جس میں مہکار پھرا کرتی تھی خراماں قدم
سنا ہے اب وہاں ڈیزل کا دھواں پھیلے گا
لو گارڈن،لاجیا،باغ محبت۔۔۔یہ سب نام ہیں جی سی یو لاہور کے ایک خوبصورت حصے کے جس کے ساتھ ہزاروں لوگوں کی کروڑوں یادیں وابستہ ہیں ۔ اور جس میں فیض ۔ راشد ۔ تبسم۔اشفاق احمد ۔ بانو قدسیہ اور بے شمار مشاہیر کا عکس اب بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔۔حال ہی میں گورنمنٹ نے اسے ختم کر کے وہاں میٹرو بس ٹرمینل بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔۔۔۔۔۔
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






