لوٹ چلو
Poet: Nisar Zulfi By: Nisar Zulfi, Lahoreکسی کٹھن سفر کے دوراں
کسی موڑ میں الجھ جاؤ
یا بیاباں میں بھٹک جاؤ
پھر بھی مجبور سفر رہو تو
بتاؤ تمھیں کیسا لگے گا
کبھی سمندر کے سفر پہ نکلو
پھر کشتی اگر ڈولنے لگے
اور نا خدا بھی چھوڑ جائے
پھر بھی مجبور سفر رہو تو
بتاؤ تمھیں کیسا لگے گا
کبھی تپتے ہوئے صحرا میں
تم پیاس کی شدت سے
یا دھوپ کی حدت سے
محروم ابرو آب تڑپو اور
پھر بھی مجبور سفر رہو تو
بتاؤ تمھیں کیسا لگے گا
کبھی برف کی چٹانوں پر
کبھی آگ پر یا کانچ پر
ننگے پاؤں چلنے سے
پیپ رسے یا خون بہے
پھر بھی مجبور سفر رہو تو
بتاؤ تمھیں کیسا لگے گا
یہ سوال نہیں جواب ہے
اس سوال کا جو پوچھا تھا تم نے
کہ عشق کرو تو کیسا لگے گا
بس یوں سمجھو کہ آگ ہی آگ
جس سمت چلو جس سمت دیکھو
پاؤں کے نیچے اور قدم قدم پر
ہر سمت سے شعلے لپکیں گے
اور آگے بڑھتے جانا ہے
اور بھول جاؤ کہ پیچھے بھی کچھ ہے
وہ جل چکا جو تھا کبھی
اتنی تنگ گلی ہے یہ کہ
مڑنا چاہو تو مڑ نہ پاؤ
ٹھہرنا چاہو تو جل جاؤ
اس لئے تم میری مانو
یہیں سے واپس لوٹ چلو
یہ روگ نہیں ہے تمہارے بس کا
عشق نہیں ہے کھیل تماشہ
آغاز میں آگ انجام میں راکھ
نہ آگ میں کودو نہ راکھ بنو
یہیں سے واپس لوٹ چلو
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






