لوگ کہتے ہیں شاعری فرصت کے سوا کچھ نہیں
میرے پاس تو میری حسرت کے سوا کچھ نہیں
یہاں اقتضائے طبیعت تو ہر کسی کو عطا ہے
کس کس نے پالیا نُدرت کے سوا کچھ نہیں
لفظوں کا میل ہو یا جنبشوں کا ملن کہیں
لب بھی پھڑکتے چلیں مگر جُرت کے سوا کچھ نہیں
ہم حریصوں کے ثنائی میں حرف جوڑتے رہے
تیری توڑ کو بھی دیکھا ہے فطرت کے سوا کچھ نہیں
خفائی سے خرسندی کو اس جہاں میں ڈھونڈ مگر
اپنے اندر بسی ہے اِس مُسرت کے سوا کچھ نہیں
تو بھی کسی تصنیف سے پوچھ کر تو دیکھ
مجھ میں تو میری ہی قدرت کے سوا کچھ نہیں