دیدۂ برق بار حد کر دی
صورتِ حسنِ یار حد کر دی
چل کے آۓ ہو خود مِرے گھر تک
ہاۓ جانِ بہار حد کر دی
سینکڑوں دل پھنسا کے رکھے ہیں
کاکُلِ پیچ دار حد کر دی
ایک لحظہ بھی نہ سکوں آیا
اے دلِ بے قرار حد کر دی
عقل و ہوش و خرد میں کھو بیٹھا
گردشِ چشمِ یار حد کر دی
اس کو لکھ کر ہماری قسمت میں
تُو نے پروردگار حد کر دی
اک جگہ دوستی ہے ٹھیک مگر
ایک، دو، تین، چار حد کر دی
مر گۓ پر نہ اٹھے رستے سے
اس قدر انتظار حد کر دی
میری تربت پہ آ کے کہتے ہیں
تُو نے اے جاں نثار حد کر دی
چین ہے دن کو نہ ہی راتوں کو
الجھنِ روزگار حد کر دی
ہر جگہ پر تِرا ہی چرچہ ہے
وامقِ نامدار حد کر دی
ہونٹ نازک ہیں سرخ عارض ہیں
خسروِ طرح دار حد کر دی
مجھ سے لوگوں کو تُو نے اے ظالم
کرتے کرتے شکار حد کر دی
کیا ہی اچھی غزل کہی ہے فہد
لوگ کہتے ہیں یار حد کر دی