لپٹا ہوا چہرہ ہے اندھیرے کی ردا میں
اور شام ہے اس دل کے دھڑکنے کی صدا میں
اک شخص چھپا بیٹھا ہے دل کے کسی کونے
پھر آگ سی بھڑکی ہے یہ سانسوں کی ہوا میں
حیرت ہے کوئی آنکھ سے آنسو نہیں نکلا
ویسے تو کڑا وقت بھی کاٹا ہے دعا میں
روتی ہوں تری یاد کے دامن سے لپٹ کر
جب اونگھنے لگتی ہوں میں خوابوں کی ادا میں
یادوں کے تعاقب میں گزاری ہیں یہ صدیاں
کیا لطف ملا مجھ کو تری کرب و بلا میں
وہ پیار کا پنچھی ہے پلٹ آئے گا وشمہ
اک تیر محبت کا جو پھینکوں گی فضا میں