اوجھل ہوا جو تو تو بھولا ہوں
بھلا چاند میں چمک ہوتی ہے
تو بچھڑا سکون کا پل نہیں
پیڑ پہلو میں کڑک ہوتی ہے
اک تسلسل کی طلب ہوتی ہے
صبح سے رات تلک ہوتی ہے
درد کی کمی کے خیال سے بھی
آنکھ چھبتی ہے پلک روتی ہے
خواہش سکون کی اب نہیں مائن
لڑائی خود سے بے دھڑک ہوتی ہے
آزما لوں گا خود کو میں
تیری حاجت کب تلک ہوتی ہے
تیری الجھن سی وفاؤں سے
سانس چلتی ہے روح سوتی ہے
میری آنکھ میں ہے یہ چمک سی جو
تیری یاد کا یہ تو موتی ہے
تجھے محفل کی جو پرکھ نہیں
مجھے شور سے الجھن ہوتی ہے
کیسا شور ہے میری سانسوں میں
بھلا سانس ضروری ہوتی ہے