لڑکیاں بے وفا نہیں مجبُور ہوتی ہیں
نہ چاہ کے چاہنوں والوں سع دُور ہوتی ہیں
اپنے ہی گھر کی قید میں رہتی ہیں
تُم کیا جانو یہ کیا کیا سہتی ہیں
رسم و رواج میں ہمیشہ چُوڑ ہوتی ہیں
لڑکیاں بے وفا نہیں مجبُور ہوتی ہیں
گھر سے باہر ہمیں جانے نہیں دیتے
دل کی بات بھی بتانے نہیں دیتے
والدین کی عزتوں کا ہم نُور ہوتی ہیں
لڑکیاں بے وفا نہیں مجبُور ہوتی ہیں
صاحبہ مرزے کو اگر بچاتی تُم سوچو
بھائیوں کو صولی جو چڑھاتی تُم سوچو
بے بسوں کی کہانیاں بہت مشہور ہوتی ہیں
لڑکیاں بے وفا نہیں مجبُور ہوتی ہیں
مجبوریوں پے قربان یہ ہوتی ہیں
دنیا والوں کو ہنسا کے روتی ہیں
یقین مانو محبتوں میں بے قصُور ہوتی ہیں
لڑکیاں بے وفا نہیں مجبُور ہوتی ہیں
نہال ذلیل دوستوں میں میرا نام نہ کرن
وفادار ہوں بے وفا نہیں بد نام نہ کرن
بد قسمت زندگیاں تباہ ضرُور ہوتی ہیں
لڑکیاں بے وفا نہیں مجبُور ہوتی ہیں