لکھ لکھ کے برباد محبتوں کے افسانے رات بھر
Poet: Kamran Khan By: Kamran, Abu Dhabi / Karachiلکھ لکھ کے برباد محبتوں کے افسانے رات بھر
جانے کیا کیا سوچتے ہیں ہم دیوانے رات بھر
یہ سوچ سوچ کے اب نہ آئے گا پلٹ کے وہ کبھی
ٹوٹتے رہے میرے صبر کے سب پیمانے رات بھر
کچھ بیتی یادیں کچھ خواب کحچھ امیدیں بھی
ان کی کتنی نشانیاں پڑی رہیں میرے سرھانے رات بھر
سیگرٹ کے دھوئیں میں بھی تھی تلاش کسی کی
یونہی نہیں جلائے ہم نے تیرے خط پرانے رات بھر
میں جوں جوں کھاتارہا قسمیں تم کو یاد نہ کرنے کی
تیرے خیال بھی آتے رہے مجھ کو آزمانے رات بھر
کروٹ پہ کروٹ بدلنا اٹھ اٹھ کے پکارنا تم کو
میرے اس حال پہ ہنستے رہے ویرانے رات بھر
ان کاغذ کی کشتیوں کو کب ہوئیں نصیب منزلیں
میرے دوست بھی آتے رہے مجھ کو سمجھانے رات بھر
جانے کب اترے گا تیرے سر سے یہ بھوت عشق کا
مجھ کو کوستے ہی رہے اپنے بیگانے رات بھر
کل عید کا چاند کیا چڑھا میرے گھر کی چھت پر
منور ہمیں یاد آتے رہے بیتے زمانے رات بھر
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






