شام ہے یاد کی صورت تو ںہیں
چاند کی گود میں حیرت تو نہیں
اٹھ نہ جائے یہ کہیں وصل کی رات
عکس تقدیس کی صورت تو نہیں
اپنی کشتی کو کنارا لگا دے
اس سے بڑھ کر تو عبادت تو نہیں
خالی ہاتھوں میں دعاؤں کے سوا
لکھتی ہے کوئی تو حسرت تو نہیں
تیری ہی ذات سے منسوب رہوں
تیرے حصے میں کدورت تو نہیں
آشنا دنیا سے کچھ ایسے ہوا
تیری یادوں کی شکایت تو نہیں
بات ہی بات میں مٹ جائے کئی
جس کی چاہت کی ضرورت تو نہیں
ایسے منصف سے امیدیں کیا ہوں
جس سے اپنی ہی وکالت تو نہیں
ہم تو بس دیکھ ہی سکتے ہیں تجھے
وشمہ ایسی یہ جہالت تو نہیں