لگ گئی پیار کو نظر تو نہیں
یا دعائیں ہی بےاثر تو نہیں
تُو حسیں ہے مگر غرور نہ کر
تُو بھی انسان ہے قمر تو نہیں
میں نے اک عمر شاعری کی ہے
مل گئ مجھ کو یوں فقر تو نہیں
روز پیروں میں جو مسلتے ہو
دل مرا تیری رہگزر تو نہیں
میں جو اک عمر سے ہی تنہا ہوں
یہ وفاؤں کا ہی ثمر تو نہیں
ہر قدم پر جو بھوک ملتی ہے
مفلسی میری ہمسفر تو نہیں
درد سہہ کر سکوں جو ملتا ہے
درد ہی میرا راہبر تو نہیں
جو بھی کہہ دے تو شاعری کر دوں
یہ عطا ہے جگر ، ہنر تو نہیں
اتنی شدت سے جو ہوئ دستک
آج پھر پگلی بام پر تو نہیں
اس کی قاصد خبر تو لاؤ کوئی
وہ گیا میرے بعد مر تو نہیں
مجھ کو باقرؔ نہ روک پینے سے
میکدہ ہے یہ تیرا گھر تو نہیں