لہر سے لہر اٹھی جو تاب سہار میں نہیں
دل کے کچھ دستوُر میرے اختیار میں نہیں
کئی الجھنیں جو آں بس ہی جاتی ہیں
ججھکتی یہ سانسیں تو کبھی شمار میں نہیں
میرے مزاج کی تاریکیوں سے گذر کر دیکھو
کہ بعض چراغاں تو اپنے خمار میں نہیں
وہ سبھی دھڑکنیں تیری اچاپت ہیں مگر
میرے لیئے کچھ بھی اُدھار میں نہیں
تیرے قیاس بھی مجھ سے اختلاف رکھتے ہیں
انہیں کہدو میری عادتیں سدھار میں نہیں
تم لوٹو گے تو موسمیں مہکیں گی
سنتوشؔ سبھی رنگ اُس بہار میں نہیں