مائے دسمبر اور میری جان ہائے ذرا ذرا
ہو رہا ہے جی نقصان ہائے ذرا ذرا
ہے تو دسمبر شدید سرد بے تحاشہ یارو
مگر جل رہے ہیں ارمان ہائے ذرا ذرا
کُہر کے سنگ ٹپک رہی ہیں شبنمی یادیں
آنسو آنے کا ہے اُمکان ہائے ذرا ذرا
سوچ کے پھولوں پہ گِر رہی ہے برفِ ماضی
کانپ رہا ہے سارا گلستان ہائے ذرا ذرا
مائے دسمبر کی سرد ہوائیں پتہ دیتی ہیں
آئے گا آئے گا طوفان ہائے ذرا ذرا
نیند کیسے آئیگی مجھے سرد اندھیری راتوں میں
یادوں کا ہے پاس سامان ہائے ذرا ذرا
نہال جی کرینگے عبادت خدا کی ضرور مگر
ابھی ہے اُس پہ دھیان ہائے ذرا ذرا