آنکھوں میں تیرے پیار کی تعبیر ہی رہی
ہونٹوں پہ خواہشات کی تاثیر ہی رہی
کھڑکی میں چاند آ کے مجھے دیکھتا رہا
آنگن میں روشنی مرے تعمیر ہی رہی
میں نے نکلنا بار ہا چاہا مگر یہاں
چشمِ خیال میں تری تصویر ہی رہی
ماتھے پہ ثبت اب بھی ہیں چھینٹےرواج کے
رسموں کی ہاتھ میں مرے شمشیر ہی رہی
بدلی ہیں لاکھ بستاں ،اک یادِ یار کی
وشمہ یہ میرے پاؤں میں زنجیر ہی رہی