ماضی کی کچھ تلخ صدائیں
اب بھی میں محسوس کروں تو
میرا بکھرا ماضی مجھ کو
سب کچھ یاد دلاتا ہے
جب آنکھوں آنکھوں میں تکتے تھے
پھول کتابوں میں رکھتے تھے
تیری آنکھوں سے پیتے تھے
تیری آنکھوں پر مرتے تھے
منزل کی کوئی فکر نہیں تھی
مستقبل کا احساس نہیں تھا
غم بھی کوئی پاس نہیں تھا
اب بچھڑے تو صدیاں گزریں
تیرے بنا یوں گھڑیاں گزریں
ماضی ہے اب وحشت وحشت
ہر سو پھیلی من میں دہشت
دل میں اب ارمان نہ دھڑکن
مشکل ہے اب زندہ رہنا
نظموں میں اس درد کو کہنا
دل میں تیرے کرب کو سہنا
پھر بھی آس مجھے رہتی ہے
اک دن دونوں مل جائیں تو
دنیا سے پھر کوچ کریں گے