مانتا ہوں عشق نہیں جانتا مگر

Poet: بلبل سفیر)بختاور شہزادی) By: BAKHTAWAR SHEHZADI, GUJRAT

سجدے کیلئے کھڑا ہوں مگر سجدے پہ دل نہیں
آج سجدے پہ نہیں شاید دل جھکانے کی طلب ہے
مجھے تیرا بنا دے اک ایسے سجدے کی طلب ہے
جو بہے آبشار بن کے, ایسی آنکھ کی طلب ہے
جو مدہوش کر جائے,ایسی خوشبو کی طلب ہے
فنا ہونا ہے ایسے کہ یہ روح کی طلب ہے
سیکھنا ہے وہ رقص کسی ایسے کی طلب ہے
جو لے جائے ہاتھ پکڑ کے اس ہاتھ کی طلب ہے
کہتے ہو عشق ہوگیا ہے, جانتے ہو کیا
عشق عبادت ہے اور عبادت کو شکر کی طلب ہے
خود کو ستم رسیدہ کہو گے تو ظلم کرو گے
کیونکہ قسمت جو لکھتا ہے, تمھیں اس کی طلب ہے
یہ کوئی نہیں جانتا یہ کیسی طلب ہے

Rate it:
Views: 371
17 Mar, 2020