ماننا ہوگا تجھے اِک روز تو یہ جانِ من
کھینچ لائی ہے تجھے دِل کی مرے سچی لگن
لاکھ ٹالے توُ مگر کوئی نہ کوئی بات ہے !
اور ہی کچھ کہہ رہی ہے تیرے لہجے کی تھکن
پیار ہوگا مجھ کو تم سے اور ہو سکتا ہے کیا ؟
توُ کِسی سے ہنس کے بولے مجھ کو ہوتی ہے جلن
سانپ کی طرح سے یہ پھنکارتی ٹھنڈی ہوا
ہڈیوں تک میں اتر جاتی ہے جیسے اک چبھن
بھول سکتی ہوں ترا گھنبیر لہجہ کس طرح ؟
آج تک بھولی نہ میں تیری وجاہت کی پھبن
میں نے سینچا تھا جسے اپنے لہو کی دھار سے
چھوڑ کر جانا پڑا اِک روز مجھ کو وہ چمن
گو زمانے کی ہر آسایش ہی میرے پاس ہے
یاد آتا ہے مجھے اب بھی خیابانِ وطن
اِک ذرا آرام پا کر پھر سے تازہ دم ہوا
روز دِن بھر کی مشقت سے تھکا ہارا بدن