اپنوں کو اپنوں سے یوں ہم نے روٹھتے دیکھا ہے
خزاں میں جاتی بہار کو چمن سے بچھڑتےدیکھا ہے
با بل سے جڑے رشتوں کو یوں جُدا ہوتے دیکھا ہے
شجر سے جیسے سوکھے پتوں کو گِرتےدیکھا ہے
یاد میں اپنوں کی آنسوں کو یوں بہتے دیکھا ہے
آسماں سے جیسے بارش کو برستے دیکھا ہے
یادوں کی چلمن سے اُس پار صغرِسنی کےآنگن میں
خود کو یوں ہنستے کھیلتے ساتھ اَخی کے دیکھا ہے
ہوک اٹھتی ہے یوں کبھی اپنوں سے دور رہکر
بیتی یادوں کےصحرا میں خود کو بھٹکتےدیکھا ہے
کیا اپنوں کی خفگی اپنوں سے کبھی مٹتی نہيں ؟ مگر
لہروں کو ساحل سے بچھڑ کر پھر گلے ملتے دیکھا ہے
جوش ماریگا کبھی لہو اپنا بھی اِس اُمید پر جی رہےہیں
سوتے جگتے خود کو اپنوں کی محبت میں اسیر دیکھا ہے
اپنی کھلی آنکھوں سے اِک ُسند ر سپنا دیکھا ہے
مانگی ہے رب سے احسن تعبیر خواب جو دیکھا ہے