ماں رانیے ترے پیار دا صدقہ - (Mother Day)
Poet: NEHAL INAYAT GILL By: NEHAL, Gujranwalaکیوے بھلاواں پیار ماں ترا
غصے وچ وی پیار بٹیرا
کِناں سی سوہنا بچن میرا
جدوں سی ساڈا کچا ویڑا
جیدے وچ میں ڈِگدا ٹیندا
ماں ساں ترے لاگے رہندا
فکراں دے وچ چلی ھو ھو
چُپ کراؤندی مینوں رو رو
سَٹ جے کر لگ جاندی سی
اَکھ ماں تری وگ جاندی سی
ساری دیہاڑی چُک کے رکھدی
پیاراں دے وچ کھُٹ کے رکھدی
گرم ہوا نہ لگن دیندی
متھا چُم کے جد ساں کہندی
میرا لعل میری اَکھ دا تارا
چن توں تو سوہنا جگ تو پیارا
کِنے لاڈ لاڈاؤندی ساں تُوں
بُرکھیاں آپ کھاواندی ساں تُوں
اپنی بھُکھ نُوں پاسے رکھ کے
ہونٹاں اُتے ہاسے رکھ کے
سارے دُکھرے جڑ جاندی ساں
بُرکھیاں آپ کھاواندی ساں تُوں
اپنی بھُکھ نُوں پاسے رکھ کے
ہونٹاں اُتے ہاسے رکھ کے
سارے دُکھرے جڑ جاندی ساں
سو سو واری مر جاندی ساں
کردا پہیاں اے دل اج میرا
مُکھرا ویکھا رج رج تیرا
دل کردا گوڈی وچ سواں
لگ کے سینے نال میں رواں
کجھ وس وچ ہوے ایسا کردا
تارے ترے ماں قدمی ٹردا
چن نُوں ترے سر تے سجا کے
کراں عبادت میں رب بنا کے
زندگی دے ماہ و سال جو لنگن
ماں ترے نال نال جو لنگن
بس ایوں حیاتی نوال ہوے گی
نہالؔ دی جان نہال ہوے گی
میں لا نہیں سکدا ڈُلار دا صدقہ
ماں رانیے ترے پیار دا صدقہ
ماں رانیے ترے پیار دا صدقہ
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






