مبنی عروض و بحر پہ اغزال و سَم کہاں
الفاظ میں وہ پہلے سے اب پیچ و خم کہاں
جن کے یہاں عروض کو ملتی ہے زندگی
اس دور میں وہ غالب و میر و عدم کہاں
کچھ اس طرح چراغ بجھے ہیں امید کے
پھر سے کریں وہ روشنی ان میں ہے دم کہاں
ٹوٹے ستم کا عرش مگر یہ حسیں نظر
اک تیرے غم کے بعد ہوئیں پھر سے نم کہاں
دل کو اسی نے توڑا ہے جس پر یقین تھا
تم ہی بتاو جائیں تو اب جائیں ہم کہاں
ساقی مرے سوال کا مجھ کو جواب دے
بیچا ہے تو نے جام کا لطف و کرم کہاں
وہم و گمان تھا نہ مجھے یہ امید تھی
ٹوٹا مرا تو جعفری ٹوٹا بھرم کہاں