شوق کی منزل کو کس نے بے دری کا گھر دیا
کس نے بے توقیر لوگوں کو مقفی سر دیا
دو قبولیت کی تم میری دعاؤں کو دعا
میں نے اپنے آنسوؤں کو دست بہ دعا کر دیا
ساقیا تیری نوازش میں تو اس قابل نہ تھا
نور وحدت کا جو دل کو تو نے اک ساغر دیا
تابہ کے ناچے گی دیوی مفلسی کی دیس میں
خون معصوماں بشکل بھینٹ اسے اکثر دیا
تہمتوں کے دیس میں دامن بچا کے چل دئے
اور اک الزام قدموں کے نشاں نے دھر دیا
ہم نے تو کعبہ نما دل آپکو ہدیہ کیا
آپ نے اس کے مقابل اک ہمیں پتھر دیا
احسن تقویم پر پیدا کیا انسان کو
راندہء درگاہ پھر عصیاں کفر نے کر دیا