متلاطم میرے نینوں میں پانی کی سطح بلند ہوتی گئی
عشق نے کی اپنی نمائش اور محبت ایک سَند ہوتی گئی
درد سے کتراکر بچنے کی کوئی راہ بھی تو نہیں ملی
سب تھا نظر کا دھوکا اور منظروں میں دُھند ہوتی گئی
وقت نے ترغیب دی ہر چیز کو پانے کے واسطے مگر
جو ملا بے قدری سے اور جو نہ ملا اُمنگ ہوتی گئی
نفیس صف بندیوں میں، میں نے منتخب کچھ اور کیا
رضا نے پائی آشنائی، غرور پہ منزل دنگ ہوتی گئی
پھر کہیں محرم آغوش میں دم لے لینے کا سوچا
کیونکہ سب آراستہ گودیں پھیلنا بند ہوتی گئی
مجھے اپنی پائداری پر ناز بھی تھا کتنا سنتوشؔ
کوئی رنگ نہ ملا دنیا سے، زندگی بے رنگ ہوتی گئی