مجبوریاں ہیں حکم جو اس کو سفر کا ہے
مشکل تمہارے شہر میں رکنا فخر کا ہے
لازم ضمیر _ مردہ ہے جینے کے واسطے
کیسا اصول _زندگی تیرے نگر کا ہے
تم بھی اسے جو دیکھ لو کہنے لگو غزل
جادو مرے کلام میں اک جادو گر کا ہے
پھل پھول چھاؤں تازگی دے پھر بھی شہر کو
کالا بدن دھو ئیں سے ہوا جس شجر کا ہے
کس کو رکھوں بیاض میں کس کو نکال دوں
ٹکڑا سخن ہر ایک ہی میرے جگر کا ہے
کاکل کے خم پہ دے چکے دین و دل_ عزیز
اس پر وہ خم جو آپ کی پتلی کمر کا ہے
دونوں ہیں بو تراب کے عاشق بس اس لیۓ
بھا ئی فخر بھی غالب _ آشفتہ سر کا ہے