اگر دنیا میرے مرنے کے بعد مجسمہ بنا دیتی ہے
اگر اسے تیرے گھر کے سامنے لگا دیتی ہے
میری آنکھیں دروازے پر تیرے آنے کا انتظار کرتی رہتیں
دنیا کیلئے نقاب کرتی میرے سامنے آکر اتار دیتی ہے
چپکے چپکے میرے پاس آکر خزف پھنکتی رہتی ہے
پھر میرے پاؤں کے پاس پڑے صدف سے کھیلتی رہتی ہے
جو پہلے آنکھوں سے اجل تھی اب وہ دیدہ چشم بنی رہتی ہے
پھر آنکھوں کی آبشار سے غسل صیقل دیتی رہتی ہے
مجھے اپنی بے بسی کی داستاں سنا کر آنسو گراتی رہتی ہے
مجھے ناہید پھر اپنی ناوک مژگاں سے جھاڑو دیتی رہتی ہے
محبت کی بے مثل بناؤں گی اب یہ حلف دیتی رہتی ہے
تیرے قدموں میں جاں دؤں گی اب یہ عہد کرتی رہتی ہے
اپنی محبت کو خطرہ بدنامی سے دیدہ دانستہ خًفا رکھتی رہتی ہے
مر کر مجسمہ بن گیا پھر اسے اپنی آب بیتی سنا تی رہتی ہے