مجھ سے محبت نہیں تو میرے شہر بھی آیا نہ کرو
کہہ دو اپنی یادوں کو بھی مجھے ستایا نہ کرو
تیری بے وفائی سے واقف نہ ہوں لحد کی دیواریں
جن سے روشنی نہ ہو میرے گھر میں وہ دیپ جلایا نہ کرو
میں ترتیب دے نہیں سکتا بکھرے ہوئے آشیانے کو
بعد مرنے کے میرے ارمانوں کو آزمایا نہ کرو
شام و سحر لیا ہے جس نے تیرے فراق کا درد
رنگ اس کی چاہتوں کے مٹایا نہ کرو
تیرا پیار نہیں ہو سکتا اب میرے شباب کی رونق
مجھے سکوں ہے جس میں خالد وہ خاک اڑایا نہ کرو