مجھ سےکٹتی ہے کہاں رات بھی ،تنہائی کا
کتنا مغرور ہے اب میرا وہ ہر جائی کا
کتنا اچھا ہے جو لوگوں نے مجھے نام دیا
مفت ملتی ہے کہاں عزتِ رسوائی کا
اس کے جاتے ہی چلی جاتی ہیں سانسیں میری
روٹھ جاتی ہے مری زیست کی شہنائی کا
لاکھ الزام لگالے وہ مجھے فکر نہیں
میرے احباب جو کرتے ہیں پزیرائی کا
تم مرے ساتھ محبت کی گواہی دینا
دونوں بانٹیں گے محبت کی یہ رسوائی کا
کتنا بہتر تھا جو خود میں ہی فنا ہم رہتے
ہم کو لے ڈوبی ہے تجھ سے تو شناسائی کا
تیری دنیا کے رواجوں سے مجھے کیا لینا
موت آئے گی مجھے وشمہ اگر آئی کا