مجھ میں آباد سرابوں کا علاقہ کرنے
پھر چلی آئی تری یاد اجالا کرنے
دن مرا پھر بھی کسی طور گزر جائے گا
رات آئے گی اداسی کو کشادہ کرنے
اور بے وقت چلا آتا ہے ساون مجھ میں
ایک گزرے ہوئے موسم کا تقاضا کرنے
میں نے جلتے ہوئے صحرا میں ترا نام لیا
سائباں خود ہی چلا آیہ ہے سایہ کرنے
کیسا لاوا ہے تہہ آب یہاں آنکھوں میں
کون آیہ ہے سمندر کو جزیرہ کرنے