مجھ کو قرطاس پہ رنگوں سے سجایا جائے
Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, ملایشیامجھ کو قرطاس پہ رنگوں سے سجایا جائے
میری تصویر کو ہاتھوں سے بنایا جائے
اتنی ندرت ہے کہ جو دیکھے وہی فخر کرے
اتنا خوش رنگ یہ آنکھوں میں سمایا جائے
اس قدر کرب کا سایہ ہے محبت کا سفر
غمِ دنیا میں تو اشکوں سے جلایا جائے
وقت کی دھار پہ ہر وقت بدلتا دیکھوں
میری تقدیر کو یہ کیسا بنایا جائے
مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں ٹوٹ نہ جائے گر کر
اپنے ہاتھوں سے اگر مجھ کو لگایا جائے
میرے محبوب کبھی آؤ ذرا رات ڈھلے
کیسے جلتا ہے مرے دل کو جلایا جائے
خون آنکھوں سے جو بہتا ہے وہ ہے دل کا مرے
کتنی ہجرت کی ہے دل سوز سزا دیکھایا جائے
گل کے موسم کی ہواؤں سے گذارش ہے مری
مری حالت نہ بکھرجائے لگایا جائے
صبح کی آنکھ سے نکلا ہے سمندر کیسے
میرے احساس پہ برسی جو گھٹا یا جائے
شمع جلتی ہے کسی اور کے غم میں لیکن
اس کے پہلو میں ہزاروں کو اٹھایا جائے
پھول خوشبو کے یہ چہرے پہ سجا لو وشمہ
مری آنکھوں کی تمنا کو ہے بھایا جائے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






