مجھ کو میری نطروں میں اجاگر کرے کوئی
وار دل پہ ہوگیا ہے اب سر پر کرے کوئی
ہاں آشفتہ سری ہی میری پہچان بن گئی
اب جذبوں کا احترام بھی کیوں کر کرے کوئی
محفل میں تیرا چرچا ہو اس پر ہم چپ رہے
چپ لیکن تنہائی میں بھی آکر کرے کوئی
بادل کی طرح برسی ہیں آنکھیں میری لیکن
اب پیاسا ہوں میرے نام سمندر کرے کوئی
صادق بکھرتا جاؤں میں تنکوں کی طرح اب
ظلم اس طرح سے مجھ پہ ستمگر کرے کوئی