مجھکو تُو ، موسٰی کو طُور چاہیئے
دیدارِ یار کا اب دستوُر چاہیئے
روشن کَدہ یہ حُسن حجابوں سے جا مِلے
پہلی نظر میں وہ مجھے مَخموُر چاہیئے
لاحق ہے زندگی کو اُمیدوں کا یہ سفر
کہ حیاتِ آرزُو کو یہ فتوُر چاہیئے
عیادت کو آ کہ پوچھتے ہو، زخموں سے ہو بھرے؟
یہ زخم ہیں تو زخم پھر کافوُر چاہیئے
جو تڑپا رہا ہے ناز و نزاکت کہ رُوپ سے
باہوں میں ٹُوٹتا ، وہ مغرُور چاہیئے
بچوں کہ زِد کے جیسی مِری دل رقیبیاں
وہ چاہیئے مجھے اور ضروُر چاہیئے
سُن لے! فسانہءِ دل افلاس سے پَرے
اب دردِ زندگانی سے دل، دُور چاہیئے
آنکھوں سے سوالات نہ کر، دَستخط کر
یہ درخواست ہے اور درخواست بھی منظُور چاہیئے