وہ رابطے وہ تعلق وہ چاہت نا رہی
تیری ہجر کی اب ویسی وحشت نا رہی
نکلی جب میں اس کے طلسمی حصار سے
دل کو کسی مسیحائی کی حاجت نا رہی
پھر یوں ہوا کہ کوئی درد آشنا نا رہا
پھر یوں بھی ہوا درد میں شدت نا رہی
وہ بھی مصروف ہو گیا روز مرہ کے کاموں میں
مجھے بھی اس کو یاد کرنے کی فرصت نا رہی
اب تو سوچ بھی نہیں سکتی کسی کو چاھنے کا
کہ مجھے اب محبت سے محبت نا رہی
جب تیری یاد آتی ہے پلکیں بھیگ جاتی ہیں
لیکن آنسو گرانے کی مجھ میں ہمت نا رہی